Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر4

عانیہ اُس کے کمرے میں ہی سوئی تھی اس کے سونے کے بعد وہ دھیرے سے اُٹھی تھی اور دبے پاؤں کمرے سے باہر نکلی تھی اُس کا ارادہ دُرید کے کمرے میں جا کر اُس کی خیریت پوچھنے کا تھا پورا لاونج اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا بس کھڑکیوں سے آتی چاند کی روشنی ہی لاونج کو تھوڑا بہت روشن کر رہی تھی۔۔۔۔ ساوی کا کمرہ اوپر تھا اس کے ساتھ والا کمرہ شایان کا تھا جو رہتا تو اکثر بند ہی تھا مگر نادیہ بیگم روز اس کی اپنی نگرانی میں صفائی کرواتی تھیں لیکن آج وہاں اشعر ٹھہرا ہوا تھا ۔۔۔جبکہ دُرید کا کمرہ نیچے تھا اور اُس کے ساتھ والا کمرہ نادیہ بیگم اور مراد صاحب کا تھا جبکہ ایک سائیڈ پہ کچن تھالاونج کافی بڑا تھا جس کے درمیان میں صوفے اور ٹیبلز رکھے ہوئے تھے اور ایک طرف ٹی وی ایریا بنایا گیا تھا اور اس سے زرا فاصلے پہ گیسٹ روم تھا جہاں وقار صاحب اور حنا بیگم ٹھہرے تھے۔۔۔۔ وہ دُرید کے کمرے کی طرف بڑھی اس وقت رات کے گیارہ بج ریے تھے۔۔۔۔کمرے کے باہر پُہنچ کے اُس نے ہلکی سی دستک دی مگر کوئی جواب نہیں آیا اُس نے پھر سے زرا زور سے دستک دی مگر پھر بھی کوئی جواب نہیں آیا وہ مایوس ہوئی مگر پھر بھی پندرہ منٹ تک وہاں کھڑی انتظار کرتی رہی مگر نا درید کو جاگنا تھا نہ وہ جاگا۔۔ شاید سو گئے ہیں ۔۔۔۔اُس نے افسردگی سے سوچا ۔ اب صبح ہی اُن کی طبیعت کا پوچھوں گی ۔۔۔۔وہ بڑبڑاتے ہوئے واپس جانے کو مُڑی ۔۔۔۔ ساوی ۔۔۔۔۔ابھی وہ لاونج میں پہنچی ہی تھی کہ پیچھے سے آواز سن کہ وہ ایکدم ڈر گئی ۔۔۔۔ اشعر بھائی آپ ۔۔۔۔ ڈرا دیا مجھے ۔۔۔۔وہ دھک دھک کرتے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ۔ ہاں وہ میں پانی پینے آیا تھا تو تم دِکھ گئی اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔وہ جواب دیتے ہوئے سوالیہ ہوا ۔ آ کُچھ نہیں بس نیند نہیں آ رہی تھی تو سوچا لان میں ٹہل آوں ۔۔۔۔۔ وہ ہڑبڑاتی ہوئی بولی چلو پھر میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔ وہ اس کی طرف بڑھتا ہوا بولا ۔ ننن نہیں اب تو مجھے نیند آ گئی ہےاشعر بھائی میں واپس ہی جا رہی تھی کہ آپ نے آواز دے دی ۔۔۔۔۔وہ اس کی بات سن کے بوکھلا گئی اور جلدی سے بولی۔ ویل۔۔۔۔ اوکے تم جاؤ پھر سو جاؤ صبح ملتے ہیں ۔۔۔۔وہ مسکراتا ہوا بولا ۔ جی گڈ نائٹ ۔۔۔وہ واپس مُڑتی ہوئی بولی۔ گُڈ نائٹ ۔۔۔۔۔۔وہ اُس کے پیچھے سے بولا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔


ان کے جانے کے بعد دُرید بھی کھڑکی جو کہ لاونج کی طرف کھلتی تھی اسے بند کرتا ہوا بیڈ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔ وہ تب ہی جاگ گیا تھا جب ساوی نے دروازے پہ دستک دی تھی اور وہ جانتا تھا کہ دروازے پہ کون ہے وہ اپنی چڑیا کے ہر انداز کو پہچانتا تھا اسے پتہ تھا کہ وہ اُس کی خیریت پوچھنے ضرور آئے گی مگر وہ کافی لیٹ ہو گئی تھی گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے اگر کوئی رات کے اس وقت ساوی کو اُس کے کمرے سے نکلتے دیکھ لیتا تو پتہ نہیں ساوی کے کردار پہ کیا کیا باتیں بناتا اور دُرید کو ہرگز یہ گوارا نہیں تھا کہ اُس کی وجہ سے اُس کی چڑیا کے بارے میں کوئی کُچھ بولے گھر والے تو جانتے تھے کہ وہ آپس میں کتنے کلوز ہیں اور دونوں اایک دوسرے کے بغیر سانس بھی نہیں لیتے مگر وہ دوسروں کو باتیں بنانے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ اس لئیے اُس نے دروازہ نہیں کھولا مگر پھر بھی ساوی پندرہ منٹ دروازے پہ آس لگائے کھڑی رہی جس پہ اُسے ساوی پہ بے انتہا پیار آیا تھا اور جب وہ واپس گئی تب اُس نے دروازہ کھولا تھا لیکن لاونج کے درمیان میں ساوی کو اشعر کے ساتھ دیکھ کے وہی رُک گیا تھا اور خود پہ بہت مشکل سے ضبط کیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ساوی رات کہ اس پہر اشعر کے ساتھ ہو۔۔۔۔۔ وہ وہاں سے ہٹ کے کھڑکی کی طرف آیا تھا جہاں سے اُن دونوں کی آوازیں صاف سُنائی دے رہی تھی ۔۔۔جہاں اُسے ساوی کے جھوٹ پہ ہنسی آئی تھی کہ وہ ٹہلنے آئی تھی وہی اُسے اشعر کی آاس کے ساتھ ٹہلنے کی آفر پہ غُصہ آیا تھا ۔۔۔ اس کا کوئی بندوبست کرنا پڑے گا زیادہ ہی میری چڑیا میں انٹرسٹ لے رہا ہے۔۔۔۔۔وہ بڑبڑاتے ہوئے خود سے بولا ۔ پھر جب ساوی واپسی کے لیے پلٹ گئی تب وہ بھی سکون کی سانس لیتا واپس بیڈ پہ آیا تھا ۔۔۔اور اپنی چڑیا کے بارے میں سوچتے سوچتے کب اُس کی آنکھ لگی اُسے پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔۔۔۔۔


اگلی صبح وہ جلدی اُٹھ گئی تھی کیونکہ آج اُس کی امپورٹنٹ اسائنمنٹ تھی وہ فریش ہو کے نیچے پہنچی تو تقریباً سبھی ڈائینینگ ٹیبل پہ پہنچ چُکے تھےوہ ہمیشہ کی طرح پُروقار لگ رہی تھی سر پہ حجاب پہنے گہری بڑی بڑی کالی آنکھیں جن میں کاجل کی ہلکی سی لکیر سجی تھی جو اُس کی آنکھوں کو اور خوبصورت بنا رہی تھی ۔۔۔۔چھوٹی سی ناک اور تیکھے نین نقش سمیت وہ ایسی لڑکی تھی جس میں دیکھنے والوں کو اٹریکشن فیل ہوتی تھی۔۔۔ درید وہاں موجود نہیں تھا وہ بھی سب کو سلام کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔اور جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگی ۔۔۔۔ آرام سے کھاو بیٹا کس بات کی جلدی ہے ۔۔۔۔نادیہ بیگم ڈپٹتے ہوئے بولی.. ماما آج جلدی جانا ہے ایک بہت ضروری اسئنمنٹ جمع کروانی ہے۔۔۔۔۔ وہ ہنوز جلدی جلدی کھاتے ہوئے بولی۔ بیٹا آج تو نہ جاتی ہم تم سے ملنے آئے اور تم یونیورسٹی جا رہی ہو ۔۔۔۔ حنا بیگم خفگی سے بولیں ۔۔ میں جلدی آجاوں گی اگر ضروری نہ ہوتا تو نہیں جاتی ۔۔۔وہ اُن کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ پر بیٹا ڈرائور تو چُھٹی پہ ہے جاؤ گی کس کے ساتھ۔۔۔۔ نادیہ بیگم نے پوچھا۔۔۔ اوہ نو ۔۔۔۔آج ہی چُھٹی کرنی تھی ڈرائیور کو بھی۔۔۔۔۔وہ پریشانی سے بولی۔ کوئی بات نہیں میں چھوڑ آتا ہوں۔۔۔اشعر نے آفر کی ۔ ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔میں آفس جا رہا ہوں ساوی اپنا بیگ لے لو میں تمہیں ڈراپ کر دوں گا۔۔۔۔وہ ابھی اشعر کو ہاں میں جواب دیتی اُس سے پہلے ہی درید اُس کی بات کاٹتے ہوئے بولا جو ابھی وہاں آیا تھا بلیک کلر کا پینٹ کوٹ وائیٹ شرٹ اور بلیک ہی شیڈز والی ٹائی لگائئی ہوئی تھی بالوں کو جیل لگا کے سیٹ کیا گیا تھا براون کلر کی آئیز جو کے اس کی ماں پہ گئی تھی ذہانت سے چمک رہی تھیں گندمی رنگت ستوان ناک اور چہرے پہ ہلکی ہلکی بئیرڈ اسے پُرکشش بناتی تھی وہ ہینڈسم تھا مگر جتنا ہینڈسم تھا اتنا ہی بے نیاز بھی۔۔۔۔ اس وقت بھی وہ ماحول پہ چھایا ہوا لگا۔۔ درید کو دیکھ کے اشعر کا موڈ ایک دم خراب ہوا تھا وہ خود بھی ایک خوبرو جوان تھا مگر درید کے سامنے اُس کی پرسنیلٹی دب سی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
ساوی نے اُس کے چہرے کی طرف دیکھا جو معمول سے زیادہ سنجیدہ تھا۔۔ اِنہیں کیا ہوا۔۔۔۔۔۔دل میں سوچا ۔۔ مگر بیٹا تم نے ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا اور تمہاری طبعیت بھی ٹھیک نہیں ۔۔۔۔۔۔نادیہ بیگم پریشانی سے بولیں۔ میں ٹھیک ہوں چچی جان آپ میری فکر مت کریں اور ناشتہ میں آفس میں ہی کر لوں گا ۔۔۔۔وہ اُنہیں مطمئن کرتا ہوا بولا۔۔۔۔ ٹھیک ہے دھیان رکھنا اپنا اور خیر سے جاؤ ۔۔۔۔۔وہ اُسے تاکید کرتی ہوئیں بولیں۔۔۔ اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔۔ دونوں سلام کرتے ہوئے باہر نکل گئے۔۔۔۔۔ اور اشعر ناگواری سے یہ سب دیکھ رہا تھا اُسے بلکل پسند نہیں آیا تھا یوں درید کا خود آکر ساوی کو لے جانے کی بات کرنا ۔۔۔ جلد ہی ماما سے بات کرنی پڑے گی ساوی تو صرف میری ہے اسے تمہارا تو نہیں ہونے دوں گا درید فریاد احمد۔۔۔۔۔۔۔وہ دل میں ہنستا ہوا بولا جیسے یہ تو بہت آسان تھانا ۔۔۔۔۔۔۔


آج گاڑی میں بلکل خاموشی تھی جو کہ خلاف معمول تھی ۔۔۔جیسے وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے جاتے تھے اس کے برعکس آج دونوں خاموش تھے درید کا یہ رویہ اُسے اُلجھا رہا تھا ۔۔۔۔ واپسی پہ بھی میں ہی لینے آوں گا ۔۔۔۔۔۔ بالآخر خاموشی ٹوٹی تھی۔۔۔۔ جی۔۔۔۔وہ دھیمے سے بولی ۔۔ طبعیت ٹھیک ہے؟؟؟ وہ فکرمندی سے نرم لہجے میں پوچھ رہا تھا ۔۔ میری طبیعت تو ٹھیک ہے مگر آپ کو کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔ سوال کے بدلے سوال ہوا ۔۔ مجھے کیا ہونا ہے تمہارے سامنے تو ہوں بلکل ٹھیک ۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولا ۔۔۔ نہیں آپ روز جیسے تو نہیں ہیں آج اتنے سنجیدہ اور ڈائیننگ ٹیبل پہ بھی آپ نے عجیب بیہیو کیا میں اشعر بھائی کے ساتھ آجاتی آپ ویسے بھی ٹھیک نہیں تھے۔۔۔۔ وہ حیرانگی سے بول رہی تھی۔۔ کیوں آجاتی تم اس کے ساتھ تم صرف میرے ساتھ آو گی میرے ساتھ جاؤ گی کسی اور کو کوئی حق نہیں سمجھی تم اور آئیندہ احتیاط کرنا مجھے نہیں پسند تمہارا اس کے ساتھ ہنسنا بولنا ۔۔۔۔ وہ شدت پسندی سے بول رہا تھا اور وہ حیرت سے گنگ بیٹھی تھی۔۔۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو وہ میرے کزن ہیں اور بھائی بھی ۔۔۔۔۔وہ حیرت بھرے لہجے میں بولی۔۔۔۔۔ واٹ ایور ۔۔۔۔وہ جو بھی ہے جو میں نے کہا ہے بسس اس بات کا دھیان رکھنا اور موڈ ٹھیک کرو اپنا واپسی پہ لنچ باہر کرواوں گا اور اس کے بعد شاپنگ بھی کریں گے ٹھیک ہے؟؟؟ ۔۔۔۔ وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔ ٹھیک ہے مگر صرف لنچ شاپنگ کی ضرورت نہیں ہے میرے پاس سب کُچھ تو ہے۔۔۔۔۔وہ شاپنگ سے منع کرتی بولی۔۔۔ ٹھیک ہے جیسی میری چڑیا کی مرضی ۔۔۔۔۔۔ وہ لاڈ سے بولا پتہ تھا اس کے چڑیا کہنے پہ وہ ہمیشہ کی طرح کھلکھلا کے ہنسے گی اور ہوا بھی یہی ۔۔۔وہ کھلکھلا کے ہنسی تھی ۔۔۔۔ میں چڑیا ہوں ۔۔۔۔۔وہ پوچھ رہی تھی ۔ ہاں میری یعنی دُرید فریاد احمد کی چڑیا۔۔۔۔وہ معنی خیزی سے بولا ۔۔۔۔۔ اور وہ اپنا سُرخ ہوتا چہرہ کھڑکی کی طرف موڑ گئی کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ابھی دُرید کو اس کے دل کے راز کی بھنک بھی پڑے ۔۔۔ کیا پتہ اُس کے دل میں ساوی کے لیے کُچھ تھا یا وہ صرف اُسے اپنی دوست سمجھتا تھا ۔۔۔۔دونوں ایک دوسرے کے دل کے جزبات سے انجان تھے ۔


وہ آفس پہنچا تو دس بج چکے تھے آج کل وہ لیٹ آفس آرہا تھا کوئی کام کرنےکو اس کا دل نہیں کرتا تھا ہر وقت اُس کے بارے میں سوچتا رہتا تھا کہ وہ کہاں ہو گی ٹھیک بھی ہو گی یا نہیں وہ تو باہر کی دُنیا کے بارے میں جانتی بھی نہیں تھی کہ کیسے کیسے حیوان باہر منہ کھولے بیٹھے رہتے ہیں کہ کب کوئی شکار ہاتھ لگے ۔۔۔ جب کبھی ایسی سوچیں اُس کے زہن میں آتی وہ کانپ سا جاتا اور شدت سے اُس کے لیے دعائیں مانگتا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو ٹھیک ہو اُس کو ایک ہلکی سی آنچ بھی نہ آئے۔۔۔۔ جب پچھتاوا حد سے بڑھ جاتا تو خدا سے اپنی موت کی دُعا مانگتا اپنے لیے سزا مانگتا یہ بھول جاتا کہ یہ سزا ہی تو تھی کہ وہ اِس سے دور تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ کیبن کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا اُس کے پیچھے ہی اُس کا سیکریٹری بھی داخل ہوا جس کے ہاتھ میں کافی فائلز تھیں۔۔۔ سر ان فائلز پہ آپ کے ساین چاہئیے ۔۔۔۔وہ جب اپنی کُرسی پہ بیٹھ گیا تو سیکریٹری فائلز کو ٹیبل پہ رکھتا ہوا بولا ۔۔ ٹھیک ہے میں کر دیتا ہوں تب تک اس ہفتے کی ساری رپورٹ لے کے آو ۔۔۔۔۔وہ فائلز کو اپنی طرف کھسکاتا ہوا بولا ۔۔ جی سر۔ . . . وہ سر ہلا کر واپس مُڑ گیا ۔۔ وہ فائلز کو پڑھ رہا تھا اور جو فائل کمپلیٹ ہوجاتی اُس پہ سائن کر کے ایک طرف رکھتا جا رہا تھا ۔۔۔ ابھی وہ اسی کام میں مصروف تھا کہ ڈور پہ دستک ہوئی۔۔۔ کم ان۔۔۔۔۔ وہ مصروف سا بولا ۔ اسلامُ علیکم سر۔۔۔۔۔۔۔ حیدر کی آواز سُن کے اُس نے سر اُٹھایا ۔۔ تم اس وقت خیریت؟؟؟ ۔۔۔۔ اس نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔ جی سر وہ آپ کو بہت ضروری بات بتانی ہے ۔۔۔۔۔ وہ کُرسی پہ بیٹھتا ہوا بولا ۔۔۔ تم وہ ضروری بات بغیر تمہید باندھے بھی بتا سکتے ہو ۔۔۔۔ وہ طنز کرتے ہوئے بولا ۔۔ جی سر وہ جو تصویر آپ نے دی تھی پتہ چلا ہے کہ آٹھ ماہ پہلے اُس لڑکی کاروڈ ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور جس گاڑی سے اس کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا وہ ہی لوگ اُسے ہسپتال لے کر گئے تھے اُس کے بعد اب وہ لڑکی زندہ ہے یا نہیں اس بارے میں کُچھ پتہ نہیں چل سکا ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ شرمندہ ہوتے ہوئے ساری بات تفصیل سے بتا گیا ۔۔۔۔ آور وہ جیسے جیسے اُس کی بات سن رہا تھا ویسے ویسے اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو تم وہ زندہ ہے سمجھے تم زندہ ہے وہ کُچھ نہیں ہو سکتا اُسے ۔۔۔۔۔وہ ایکدم چیختا ہوا بولا کہ ایک منٹ کے لیے حیدر بھی بوکھلا گیا ۔۔۔۔ جج جی سر وہ زندہ ہی ہو گی میں بہت جلد پتہ کر لوں گا آپ فکر مت کریں ۔۔۔۔ وہ اُس کی حالت پہ افسوس کرتا اسے تسلی دیتا ہوا بولا ۔۔۔۔۔ ہاں وہ ٹھیک ہو گی اتنی دعائیں مانگی ہیں میں نے اُس کی سلامتی کے لیے خدا میری دعائیں رائیگاں نہیں جانے دے گا وہ بلکل ٹھیک ہو گی۔۔۔۔۔ وہ خود کو سنبھالتا ہوا بولا جی انشاللّٰہ سر ۔۔۔۔۔ حیدر جوابًا بولا اس گاڑی کا پتہ چلا جس سے ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔۔۔۔ وہ کُچھ سوچتے ہوئے بولا ۔ نہیں سر وہاں جنہوں نے ایکسیڈنٹ ہوتے دیکھا تھا ان کا کہنا ہے کہ اتنی پرانی بات ہے گاڑی کا نمبر کیسے یاد رہ سکتا ہے ۔۔۔۔ حیدر نے بتایا ۔۔ ٹھیک ہے تم کوشش جاری رکھو اور مجھے ساری رپورٹ کرو اب جا سکتے ہو تم۔۔۔۔۔وہ کُرسی کی پُشت سے ٹیک لگاتا ہوا بولا ۔ جی باس ۔۔۔۔ وہ اسے سلام کرتا واپس مُڑ گیا ۔۔۔ اسی وقت سیکرٹری اندر داخل ہوا اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔۔۔ یہ فائل مجھے دو اور جا کہ اپنا کام کرو میں گھر جا رہا ہوں اور یہ فائل میں کل دیکھوں گا اور دھیان رکھنا یہاں کوئی بھی مسلہ ہو مجھے بتانا ۔۔۔۔وہ فائل کو ڈرار میں رکھ کر لاک کرتا ہوا بولا ۔۔ جی سر ۔۔۔۔ سیکرٹری نے مودبانہ جواب دیا اور اُس کے پیچھے ہی باہر نکل گیا ۔


   0
0 Comments